سوال: اسلام میں خود کشی کیوں حرام ہے؟
جواب: فی الحال اجمالی جواب دیتے ہیں جب وقت ملے کوشش کریں گے تفصیلی جواب دینے کی۔ خودکشی حرام ہے نہ صرف اسلام میں بلکہ تمام ادیان ابراہیمی میں بھی حرام ہے، اور حتی ہندو ادیان میں بھی خودکشی حرام ہے۔
اسلام کا نظریہ حیات یہ بتاتا ہے کہ انسان اپنے جسم کا مکمل مالک نہیں ہے، اس انسان کو ایک خاص کمال تک پہنچانا ہے، اور حد سے زیادہ تصرف نہیں کرسکتا، جیسے آنکھیں ہیں ان کو بھی حد سے زیادہ استعمال نہیں کرسکتا ہے، حدیث میں آیا یے کہ انسان کی آنکھیں جب تھک جائیں تو اب اسے ریسٹ دینا چاہیے اب وہ زیادہ استعمال نہیں کرسکتا ہے، اب تھک گئیں ہیں اس سے زیادہ آنکھوں پہ زور لگانا حرام ہے(؟)
اسی طرح سارے جسم کے اعظا اور پوری زندگی، چاہے اپنی ہو یا کسی اور کی، کوئی بھی حق حیات چھین نہیں سکتا۔
اسلام کا نظریہ حیات یہ بتاتا ہے کہ انسان اپنے جسم کا مکمل مالک نہیں ہے، اس انسان کو ایک خاص کمال تک پہنچانا ہے، اور حد سے زیادہ تصرف نہیں کرسکتا، جیسے آنکھیں ہیں ان کو بھی حد سے زیادہ استعمال نہیں کرسکتا ہے، حدیث میں آیا یے کہ انسان کی آنکھیں جب تھک جائیں تو اب اسے ریسٹ دینا چاہیے اب وہ زیادہ استعمال نہیں کرسکتا ہے، اب تھک گئیں ہیں اس سے زیادہ آنکھوں پہ زور لگانا حرام ہے(؟)
اسی طرح سارے جسم کے اعظا اور پوری زندگی، چاہے اپنی ہو یا کسی اور کی، کوئی بھی حق حیات چھین نہیں سکتا۔
...مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسٰادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمٰا قَتَلَ النّٰاسَ جَمِيعاً وَ مَنْ أَحْيٰاهٰا فَكَأَنَّمٰا أَحْيَا النّٰاسَ جَمِيعاً وَ لَقَدْ جٰاءَتْهُمْ رُسُلُنٰا بِالْبَيِّنٰاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ (مائدہ 32)
جوادی:
جو شخص کسی نفس کو .... کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی اور بنی اسرائیل کے پاس ہمارے رسول کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے مگر اس کے بعد بھی ان میں کے اکثر لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہی رہے۔
اسلام میں ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل جیسا ہے، اور ایک شخص کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کی طرح ہے۔
يٰا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَ صٰابِرُوا وَ رٰابِطُوا وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (آل عمران 200)جوادى
اے ایمان والو صبر کرو.صبر کی تعلیم دو.جہاد کے لئے تیاری کرو اور اللہ سے ڈرو شاید تم فلاح یافتہ اور کامیاب ہوجاؤ۔
مشکل کاموں میں صبر کرنے اور ایک دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرنے کا حکم دیا ہے، اور ایک دوسرے سے صلہ رحمی کرنے اور دینی رابطہ رکھنے کا حکم دیا ہے ، موجودہ مغربی کلچر میں انسان تنہائی پسند ہوا اور فقط اپنی ذات کی فکر میں رہتا ہے، اس طرح مصابرہ اور مرابطہ کی کمی سے انسان ایک خطرناک حد تک جاتا ہے اور کبھی خود کشی پہ یہ سوچ منتہی ہوجاتی ہے۔
خلاصہ: انسان مکمل آزاد نہیں ہے کہ جو کرنا چاہے وہ کرے، چاہے اپنی جان ہو یا دوسروں کی۔
ماشاء اللہ زبردست
جواب دیںحذف کریں