تولیدِ علم کے لحاظ سے سوسائٹی تین طرح کی ہوتی ہے۔
١.انفرمیشن سوسائٹی
لوگوں کی نالج کو استعمال کرتی ہے، اور درست طریقے سے لوگوں کا تیار شدہ علم استعمال کرتی ہے اور بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے.
٢. نالج سوسائٹی
نالج جنریٹ کرتی ہے، یہ سوسائٹی اور معاشرہ اطنی ذاتی ہمت سے تولید علم کرتا ہے.
٣.نالج کلچر سوسائٹی:
یہ معاشرہ نالج جنریٹ کرکے دوسروں تک پہنچاتا بھی ہے. اور یہ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے،نالج جنریشن کی سپیڈ اتنی تیز ہوچکی ہے کہ صبح نالج جنریٹ ہوتی ہے شام کو دنیا کے کونے کونے پہنچ جاتی ہے، لیکن آپ پاکستان میں نیٹ پہ کوئی بھی معلومات تلاشیں نہیں مل سکتی ہیں، اس کے برعکس آپ انگریزی میں کوئی بھی معلومات سرچ کریں، آپ کے لیے ہر قسم کی معلومات حاضر ہیں، شاید آپ کے علاقے کے بارے میں اردو میں کوئی مواد نہیں ملے گا پر انگریزی میں مواد نیٹ ہر ہوگا. اسی طرح نہ صرف پاکستان بلکہ سارے اسلامی ممالک کی حالت پاکستان جیسی ہے یا اس سے قدرے بہتر ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ مسلمان اتنے ملکوں میں سے کوئی بھی اسلامی ملک میرے خیال میں ان مراحل تک پہنچا ہی نہیں ہے. وہ نالج جنریشن تو دور کی بات ہے، انگریزوں کی پیدا کردہ نالج کو صحیح سے استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ اور پورے اسلامی ممالک کی تولیدِ علم پوری دنیا کے غیر مسلم ممالک کی نسبت دیکھی جائے تو فقط ٩ فی صد ہے، یعنی تمام اسلامی ممالک مل کر ٩ فی صد علم تولید کرتے ہیں اور باقی غیر مسلم ممالک، ٩١ فی صد علم تولید کرتے ہیں. البتہ بیس سال پہلے یہ نسبت دو فی صد تھی اب نو پہ پہنچ گئی ہے.
حیف ہے مسلمان علما، مفکرین، دانشوروں پر کہ تولید علم تو دور کی بات ہے، تولید شدہ علم استعمال بھی نہیں کرسکتے!! ان شاء اللہ وقت ملے تو اس ہر لکھا جائے گا. دعا کیجیے!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں