کیا نذر غیر اللہ کے لیے کیا جاسکتا ہے؟ جیسے کسی اولیائے خدا کے لیے
وعلیکم سلام ورحمت اللہ وبرکاتہ
نذر اللہ کے لیے ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت مریم کا نذر کرنے کی حکایت خداوند نے کی ہے؛ ( رَبِّ إِنِّی نَذَرْتُ لَکَ ما فِی بَطْنِی مُحَرَّراً، آل عمران:35) پروردگارا میں نذر کرتی ہوں جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے بطور محرَر، یہاں “لام یعنی کے لیے” کا لفظ اللہ کی قربت کے معنی میں آیا ہے اور جب یہی لفظِ “لام؛ کے لیے” کسی امام ، یا دوسرے مؤمنین کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہاں اِنتِفاع، مورِد نذر یا ثواب کا معنی دیتا ہے، جیسے کہ آیت؛ (إِنّما الصَدقات لِلْفُقراء والمَساکین ،توبه:60)
کہ صدقات فقط فقرا اور مساکین “کے لیے” ہے تو یہاں قربتاً الی فقراءٍ کا معنی نہیں ہے بلکہ قربتا الی اللہ ہی ہے لیکن فقرا کے فائدے کے لیے ہے ۔
اور غیر اللہ کے لیے کوئی نذر کرے تو وہ شرک ہے اور قابل قبول نہیں ہے۔
( فتوا آیت اللہ سیستانی: بلہ در نذر باید صیغہ خوانده شود ، و لازم نیست آن را بہ عربی بخواند ، پس اگر بگوید چنانچہ مریض من خوب شود برای خدا بر من است که ده تومان به فقیر بدهم ، نذر او صحیح است ، و اگر بگوید برای خدا نذر کردم چنین کنم ، ـ بنابر احتیاط واجب ـ باید عمل کند ، ولی اگر نام خدا را نبرد و فقط بگوید نذر کردم ، یا نام یکی از اولیای خدا را ببرد نذر صحیح نیست۔ سایت سیستانی ) آخری جملے کا ترجمہ یوں ہے؛ اولیائے خدا میں سے کسی ایک نام لے تو نذر صحیح نہیں ہے۔
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریں