نئی پوسٹ

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 30 مارچ، 2022

کیا تشہد کے بعد درود واجب ہے

کیا تشہد کے بعد درود واجب ہے ؟ یعنی تشہد کے بعد اللھم صل علی محمد وال محمد نہ کہے تو نماز کا کیا ہوگا؟

آیہ (ان اللہ و ملاءکتہ یصلون علی النبی۔۔۔ کے صریح نص کی وجہ سے صلوات بر محمد و آل محمد کو علمائے اسلام واجب سجھتے ہیں یا بعض رکن سمجھتے ہیں اور بعض مستحب، اور بعض فرقے زندگی میں ایک بار پڑھیں تو کافی سمجھتے ہیں لیکن شیعہ نماز میں صلوات کو واجب سمجھتے ہیں، اور جو جان بوجھ کر چھوڑے اس کی نماز باطل ہوجائے گی لیکن جس سے سہوا چھٹ جائے تو وہ نماز کے بعد، پورے تشہد کو قضا کرے اور قضا کے بعد دو سجدہ سہو بجا لائے۔
"مؤلف کہتے ہیں کہ: "نماز میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنا" یعنی آخری تشہد میں درود، یہ نماز کا بارہواں رکن ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحابہ کرام نے فرمایا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ پر سلام پڑھنا تو سکھایا گیا ہے تو آپ پر درود کیسے پڑھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم کہو: اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ ، وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ... یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم درود ابراہیمی پڑھنے کو واجب قرار دینے کا تقاضا کرتا ہے، وجوب میں اصل یہی ہے کہ واجب عمل فرض ہوتا ہے، اور جب اسے ترک کیا جائے تو عبادت باطل ہو جاتی ہے، فقہائے کرام نے اس مسئلے کی دلیل اسی طرح سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

لیکن جب آپ اس حدیث پر غور و فکر کریں تو اس سے یہ کشید نہیں ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنا نماز کا رکن ہے؛ کیونکہ صحابہ کرام نے درود پڑھنے کی کیفیت کے بارے میں پوچھا کہ ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ان الفاظ کی رہنمائی کی ، اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ: اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: "تم کہو" وجوب کے لئے نہیں ہے بلکہ رہنمائی اور تعلیم کے لئے ہے، لہذا اس کے علاوہ اگر کوئی اور دلیل مل جائے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نماز میں درود پڑھنے کا حکم ہو تو وہی دلیل معتبر ہو گی، اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور دلیل نہیں پائی جاتی تو یہ مسئلہ وجوب کی دلیل بنتا ہی نہیں ہے چہ جائیکہ درود ابراہیمی کے رکن ہونے کی دلیل بنے، یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے اس مسئلے میں اختلاف کی وجہ سے متعدد اقوال ہیں:

پہلا قول: نماز میں درود پڑھنا رکن ہے، یہی حنبلی فقہی مذہب میں مشہور موقف ہے، اس لیے درود کے نماز صحیح نہیں ہوگی۔

دوسرا قول: نماز میں درود پڑھنا واجب ہے، رکن نہیں ہے، لہذا بھول جانے کی صورت میں سجدہ سہو سے کمی پوری ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: "تم کہو:

لیکن جب آپ اس حدیث پر غور و فکر کریں تو اس سے یہ کشید نہیں ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنا نماز کا رکن ہے؛ کیونکہ صحابہ کرام نے درود پڑھنے کی کیفیت کے بارے میں پوچھا کہ ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ان الفاظ کی رہنمائی کی ، اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ: اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: "تم کہو" وجوب کے لئے نہیں ہے بلکہ رہنمائی اور تعلیم کے لئے ہے، لہذا اس کے علاوہ اگر کوئی اور دلیل مل جائے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نماز میں درود پڑھنے کا حکم ہو تو وہی دلیل معتبر ہو گی، اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور دلیل نہیں پائی جاتی تو یہ مسئلہ وجوب کی دلیل بنتا ہی نہیں ہے چہ جائیکہ درود ابراہیمی کے رکن ہونے کی دلیل بنے، یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے اس مسئلے میں اختلاف کی وجہ سے متعدد اقوال ہیں:

پہلا قول: نماز میں درود پڑھنا رکن ہے، یہی حنبلی فقہی مذہب میں مشہور موقف ہے، اس لیے درود کے نماز صحیح نہیں ہوگی۔

دوسرا قول: نماز میں درود پڑھنا واجب ہے، رکن نہیں ہے، لہذا بھول جانے کی صورت میں سجدہ سہو سے کمی پوری ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: "تم کہو: اَللَّہمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ ، وَّعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ... یہ وجوب کا احتمال بھی رکھتا ہے اور محض رہنمائی کا بھی، اور ممکن نہیں ہے کہ ہم اس احتمال کے ہوتے ہوئے اسے رکن قرار دے دیں کہ اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی۔

تیسرا قول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنا سنت ہے، یہ واجب اور رکن نہیں ہے، یہی موقف امام احمد سے ایک اور قول کے مطابق منقول ہے، چنانچہ اگر کوئی انسان جان بوجھ کر درود چھوڑ بھی دے تو اس کی نماز صحیح ہے؛ کیونکہ جن دلائل کی بنیاد پر انہوں نے اس کو واجب یا رکن قرار دیا ہے وہ درود کے وجوب یا رکن ہونے پر واضح انداز میں دلالت نہیں کرتے، اور براءت اصلیہ بنیادی اصول ہے۔
تو اگر فقہائے کرام کی مذکورہ دلیل کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہو تو یہی قول تمام اقوال میں سے راجح ترین محسوس ہوتا ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایسی دلیل کی بنیاد پر کسی کی عبادت کو باطل قرار دے دیں جو وجوب یا رہنمائی [استحباب] کا احتمال رکھتی ہو۔" ختم شد
" الشرح الممتع " ( 3 / 310 – 312 )
تیسرا قول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنا سنت ہے، یہ واجب اور رکن نہیں ہے، یہی موقف امام احمد سے ایک اور قول کے مطابق منقول ہے، چنانچہ اگر کوئی انسان جان بوجھ کر درود چھوڑ بھی دے تو اس کی نماز صحیح ہے؛ کیونکہ جن دلائل کی بنیاد پر انہوں نے اس کو واجب یا رکن قرار دیا ہے وہ درود کے وجوب یا رکن ہونے پر واضح انداز میں دلالت نہیں کرتے، اور براءت اصلیہ بنیادی اصول ہے۔
تو اگر فقہائے کرام کی مذکورہ دلیل کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہو تو یہی قول تمام اقوال میں سے راجح ترین محسوس ہوتا ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایسی دلیل کی بنیاد پر کسی کی عبادت کو باطل قرار دے دیں جو وجوب یا رہنمائی [استحباب] کا احتمال رکھتی ہو۔" ختم شد
" الشرح الممتع " ( 3 / 310 – 312 )
اور سلفی حضرات کا نظریہ یوں ہے

علمائے کرام کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نماز میں درود پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے، اس بارے میں متعدد اقوال ہیں، تو کچھ یہ کہتے ہیں کہ درود پڑھنا نماز کا رکن ہے اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوگی، جبکہ کچھ کہتے ہیں درود پڑھنا واجب ہے، اور تیسرا قول یہ ہے کہ درود پڑھنا سنت اور مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔

الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ نے اسی تیسرے قول کو راجح قرار دیا ہے، چنانچہ انہوں نے زاد المستقنع کی شرح میں لکھا ہے کہ:

تو اس بنا پر درود کے بغیر بھی نماز صحیح ہے (سائٹ اسلام قا)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot